Thursday, May 24, 2012

’امریکی طیاروں میں نقلی چینی پرزے‘

امریکی سینیٹ کی ایک اہم کمیٹی کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی آلات میں بڑی تعداد میں چین سے درآمد کیے جانے والے نقلی برقی پرزہ جات استعمال کیے گئے ہیں۔


سینیٹ کی مسلح افواج کے امور کی کمیٹی کو ایک سال کی تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ امریکی فوجی طیاروں میں نقلی پرزوں کے استعمال کے تقریباً ایک ہزار آٹھ سو معاملات سامنے آئے۔
کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ان تقریباً دس لاکھ مشتبہ نقلی پرزوں میں سے ستّر فیصد چین سے درآمد کیے گئے تھے۔


اس رپورٹ میں امریکہ میں رسد کی فراہمی کے ذمہ داران کے علاوہ نقلی پرزوں کے کاروبار پر قابو پانے میں ناکامی پر چین پر تنقید کی گئی ہے۔


کمیٹی کا کہنا ہے کہ ایک بھی پرزے میں خرابی سے سلامتی اور قومی تحفظ کے معاملات کو خطرہ ہو سکتا ہے اور اس وجہ سے امریکی محکمۂ دفاع کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 'امریکی فوج کے زیرِ استعمال رات میں دیکھنے کے آلات، ٹرانسمیٹرز یا جی پی ایس آلات میں چھوٹے اور تکنیکی طور پر اہم الیکٹرانک پرزے استعمال ہوتے ہیں اور ایسے میں ایک بھی پرزہ اگر خراب ہوا تو کسی بھی فوجی کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے'۔


رپورٹ میں امریکی بحریہ کے زیرِ استعمال ایس ایچ سکسٹی بی ہیلی کاپٹرز، سی ون تھرٹی جے اور سے ٹوئنٹی سیون جے سامان بردار طیاروں اور بحریہ کے پے ایٹ اے پوزائیڈن طیاروں میں نقلی پرزوں کے استعمال کی نشاندہی کی گئی ہے۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ چین کے بعد برطانیہ اور کینیڈا سے امریکہ میں سب سے زیادہ نقلی پرزے جا رہے ہیں۔


کمیٹی نے نقلی پرزے بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی نہ کرنے پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ معاملے کی تفتیش کرنے کے لیے چین جانے کے خواہشمند کمیٹی کے ارکان کو ویزا تک نہیں دیا گیا۔


رپورٹ کے مطابق، 'چین میں کھلے بازار میں نقلی الیکٹرانک پرزے بکتے ہیں۔ اس مسئلہ کو سمجھ کر نقلی سامان بنانے والوں کو روکنے کے بجائے چینی حکومت نے تحقیقات سے ہی بچنے کی کوشش کی ہے'۔


تاہم ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشتبہ نقلی پرزوں کی معلومات رکھنے کے لیے حکومت اور صنعت کے درمیان ایسے اعداد و شمار جمع کرنے کی غرض سے جاری پروگرام ناکام رہا ہے۔


اس پروگرام کے تحت 2009 سے 2010 کے درمیان نقلی پرزوں کے صرف 217 واقعات سامنے آئے اور ان میں بھی زیادہ تر شکایات صرف چھ کمپنیوں کی طرف سے آئی تھیں جبکہ سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے صرف تیرہ رپورٹس آئیں۔

No comments:

Post a Comment