آزادی اور بے لاگ رسائی کے اصول جن پر تین دہائیاں قبل انٹرنیٹ کی ترقی کی بنیادیں رکھی گئی تھیں اب مختلف اطراف سے حملوں کی زد میں ہیں۔ ان خطرات کا ذکر گوگل کے ایک بانی سرگی برِن نے برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کیا ہے۔
برِن نے انٹرویو میں کہا کہ انٹرنیٹ کی آزادی کے خلاف دنیا بھر میں قوّتیں صف آراء ہو چکی ہیں۔ ’میں اتنا پریشان ہوں جتنا پہلے کبھی نہیں ہوا‘ انہوں نے کہا۔ ’یہ بہت خوفناک ہے‘۔
برِن نے انٹرویو میں کہا کہ انٹرنیٹ کی آزادی کے خلاف دنیا بھر میں قوّتیں صف آراء ہو چکی ہیں۔ ’میں اتنا پریشان ہوں جتنا پہلے کبھی نہیں ہوا‘ انہوں نے کہا۔ ’یہ بہت خوفناک ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کو جن قوتوں سے خطرہ ہے ان میں وہ حکومتیں شامل ہیں جو اپنے شہریوں کے درمیان رابطوں کے ذرائع کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں، فنون لطیفہ کی صنعت جو اپنے مواد تک بغیر اجازت رسائی ختم کرنا چاہتی ہے اور بقول برِن کے فیس بک اور ایپل جیسی کمپنیاں جو اس معاملے میں انتہائی سخت ہیں کہ ان کے پلیٹفارم پر کون سا سافٹ ویئر جاری کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ان کمپنیوں کو ایسے باغات سے تشبیہہ دی جو دیواروں میں گھرے ہیں۔
ہالی وڈ ایسی قانون سازی پر زور دے رہی ہے جس کی مدد سے بغیر اجازت کے مواد فراہم کرنے والی ویب سائٹوں کو بند کیا جا سکے گا، برطانوی حکومت سوشل میڈیا کو مانیٹر کرنے کے لیے قانون کی بات کر رہی ہے، چین میں جہاں پر دنیا میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ کے صارفین ہیں حکومت نے حال ہی میں قانون کے ذریعے بلاگ لکھنے والوں کے لیے اپنا اصل نام بتانا ضروری قرار دیا ہے اور روس میں پوتن مخالف مظاہروں کے بعد انٹرنیٹ پر پابندیوں کی بات ہو رہی ہے۔
اڑتیس سالہ برِن نے کہا کہ پانچ سال پہلے تک ان کا خیال تھا کہ چین سمیت کسی بھی ملک کے لیے انٹرنیٹ کو زیادہ دیر تک محدود کرنا ممکن نہیں ہوگا اب ان کا خیال غلط ثابت ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال تھا کہ اس جن کو بوتل میں بند کرنا مشکل ہو گا لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ معاملات میں یہ جن واپس بوتل میں بند ہو چکا ہے۔‘
برن کی فیس بک پر تنقید سے تنازعہ پیدا ہونے کا امکان ہے۔ فیس بک کی مالیت ایک سو ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پچاس فیصد سے زیادہ امریکی جن کے پاس کمپیوٹر ہے فیس بک پر ہیں۔ دنیا بھر میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد اسی کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
انہوں نے فیس بک پر تنقید کی کہ اس نے اپنے صارفین کے لیے ڈیٹا کسی دوسری سروس پر منتقل کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انٹرنیٹ پر فیس بک کی اجارہ داری ہوتی تو گوگل بنانا بہت مشکل ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ گوگل اس لیے آگے بڑھ سکی کیونکہ ویب پر آزادانہ رسائی ممکن تھی۔ انہوں نے کہا کہ بہت زیادہ ضوابط تخلیق کے لیے سود مند نہیں ہوتے۔
گارڈین نے دنیا بھر میں حکومتوں، کمپنیوں، عسکری منصوبہ سازوں، ہیکروں اور مختلف تحریکوں کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی طرف سے انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے بارے میں مضامین کا سلسلہ شروع کیا ہے اور برِن کا انٹرویو بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے۔
ایک کروڑ چالیس لاکھ ممبران رکھنے والی تنظیم ’آواز‘ کے ایک بانی رکن پٹیل نے بھی برِن سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ تنظیم شام میں انسانی حقوق کے اور سیاسی کارکنوں کو آلات اور تربیت فراہم کر رہی ہے۔
پٹیل نے کہا کہ دنیا بھر میں ویب کی آزادی پر حملے ہو رہے ہیں۔ حکومتوں کو احساس ہو رہا ہے کہ انٹرنیٹ پر کس طرح لوگوں کو منظم کیا جا سکتا ہے اور وہ اس پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ کوششیں صرف چین یا شمالی کوریا میں نہیں بلکہ امریکہ اور اٹلی میں بھی ہو رہی ہیں۔‘
چینی فنکار ائے وی وی نے گارڈین میں لکھا کہ چین کی حکومت کی انٹرنیٹ کو قابو کرنے کی کوشش ناکام ہو گی۔انہوں نے فنون لطیفہ کی صنعت پر شدید تنقید کی جو ان کے خیال میں بغیر اجازت کے مواد شائع کرنے والی ویب سائٹوں کو بند کروا کر کے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہی ہیں۔
ہالی وڈ ایسی قانون سازی پر زور دے رہی ہے جس کی مدد سے بغیر اجازت کے مواد فراہم کرنے والی ویب سائٹوں کو بند کیا جا سکے گا، برطانوی حکومت سوشل میڈیا کو مانیٹر کرنے کے لیے قانون کی بات کر رہی ہے، چین میں جہاں پر دنیا میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ کے صارفین ہیں حکومت نے حال ہی میں قانون کے ذریعے بلاگ لکھنے والوں کے لیے اپنا اصل نام بتانا ضروری قرار دیا ہے اور روس میں پوتن مخالف مظاہروں کے بعد انٹرنیٹ پر پابندیوں کی بات ہو رہی ہے۔
اڑتیس سالہ برِن نے کہا کہ پانچ سال پہلے تک ان کا خیال تھا کہ چین سمیت کسی بھی ملک کے لیے انٹرنیٹ کو زیادہ دیر تک محدود کرنا ممکن نہیں ہوگا اب ان کا خیال غلط ثابت ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال تھا کہ اس جن کو بوتل میں بند کرنا مشکل ہو گا لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ معاملات میں یہ جن واپس بوتل میں بند ہو چکا ہے۔‘
برن کی فیس بک پر تنقید سے تنازعہ پیدا ہونے کا امکان ہے۔ فیس بک کی مالیت ایک سو ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پچاس فیصد سے زیادہ امریکی جن کے پاس کمپیوٹر ہے فیس بک پر ہیں۔ دنیا بھر میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد اسی کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
انہوں نے فیس بک پر تنقید کی کہ اس نے اپنے صارفین کے لیے ڈیٹا کسی دوسری سروس پر منتقل کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انٹرنیٹ پر فیس بک کی اجارہ داری ہوتی تو گوگل بنانا بہت مشکل ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ گوگل اس لیے آگے بڑھ سکی کیونکہ ویب پر آزادانہ رسائی ممکن تھی۔ انہوں نے کہا کہ بہت زیادہ ضوابط تخلیق کے لیے سود مند نہیں ہوتے۔
گارڈین نے دنیا بھر میں حکومتوں، کمپنیوں، عسکری منصوبہ سازوں، ہیکروں اور مختلف تحریکوں کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی طرف سے انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے بارے میں مضامین کا سلسلہ شروع کیا ہے اور برِن کا انٹرویو بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے۔
ایک کروڑ چالیس لاکھ ممبران رکھنے والی تنظیم ’آواز‘ کے ایک بانی رکن پٹیل نے بھی برِن سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ تنظیم شام میں انسانی حقوق کے اور سیاسی کارکنوں کو آلات اور تربیت فراہم کر رہی ہے۔
پٹیل نے کہا کہ دنیا بھر میں ویب کی آزادی پر حملے ہو رہے ہیں۔ حکومتوں کو احساس ہو رہا ہے کہ انٹرنیٹ پر کس طرح لوگوں کو منظم کیا جا سکتا ہے اور وہ اس پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ کوششیں صرف چین یا شمالی کوریا میں نہیں بلکہ امریکہ اور اٹلی میں بھی ہو رہی ہیں۔‘
چینی فنکار ائے وی وی نے گارڈین میں لکھا کہ چین کی حکومت کی انٹرنیٹ کو قابو کرنے کی کوشش ناکام ہو گی۔انہوں نے فنون لطیفہ کی صنعت پر شدید تنقید کی جو ان کے خیال میں بغیر اجازت کے مواد شائع کرنے والی ویب سائٹوں کو بند کروا کر کے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہی ہیں۔
No comments:
Post a Comment